Friday 26 December 2014

Apni Roswai Tery Nam Ka Charcha Dekhon by Parveen Shakir

اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکهوں
اک ذرہ شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکهو ں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکهو ں
آنکھ کهل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکهو ں

شام بهی هو گی دهندلا گئیں آنکھیں مری
بهولنے والے میں کب تک تیرا راستہ دیکهو ں

ایک ایک کر کے مجھے چهوڑ گئیں سب سکهیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکهوں

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکهو ں

تو میرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیئے دل کو دهڑکتا دیکهو ں

بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجهے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکهو ں

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں،ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکهو ں

مجھ پے چها جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکهوں

پهول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کهل جائے
پنکهڑی پنکهڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکهو ں

میں نے جس لمہے کو پوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکهو ں

تو مری طرح سے یکتا ہے مگر مرے حبیب
جی میں آتا هے کوئی اور تجھ سا دیکهوں

ٹوٹ جائیں کہ پگهل جائیں مرے کچے گهڑے
تجھ میں دیکهوں کہ یہ آگ کا دریا دیکهو ں

پروین شاکر
Parveen Shakir

No comments:

Post a Comment