دسمبر مجهے راس نہیں آتا
کئی سال گزرے
کئی سال بیتے
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جان میب سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چهیلتے ہیں
مگر میں اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر
اب تک وہی جستجو کا سفر کر ریا ہوں
گزرتا ہوا سال جیسا بهی گزرا
مگر سال آخری دن
نہایت کٹهن ہیں
میرے ملنے والو!
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے
تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجهتا ہوا دل
دهڑکتا تو ہے مسکراتا نہیں
دسمبر مجهے راس آتا نہیں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment