میری طلب تها ایک شخص جو نہیں ملا تو پهر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بهول گیا سوال بهی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بهی ڈهال تهی
اس کی ہنسی میں چهپ گیا اپنے غموں کا حال بهی
گاہ قریب شاہ رگ، گاہ بعید و ہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بهی تها وصال بهی
اس کے ہی بازوں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پے تهے، روح اور جال بهی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے ایک پتا
موج ہوا اے کوئے یار، کچھ تو میرا خیال بهی
پروین شاکر
Parveen Shakir
No comments:
Post a Comment