Monday 29 December 2014

ہر لمحہ پہن کے صدیوں کی شال گزرا

ہر لمحہ پہن کے صدیوں کی شال گزرا
لہو کا موسم بهی آپ اپنی مثال گزرا

حکایت، ضبط، ہجر بنتے کہ اشک چنتے
گزر گیا، جس طرح بهی عہد، وصال گزرا

جو شب بهی آئی حشر کے دن کو ساتھ لائی
وہ دن بهی گزرا وہ وہ شام غم کی مصال گزرا

اجاڑ بستی سے وقت کی سلطنت کا حاکم!
سجا کے ہاتھوں پہ سرخ سورج کا تهال گزرا

میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تها لیکن
تیرے بچهڑنے کا سانحہ بهی کمال گزرا

غم جہاں نے بدل دیا ہے مزاج اپنا
گراں بہت اب کے دل پے تیرا خیال گزرا

ہراس، بارود، موت، شبخوں کا خوف محسن
نہ پوچھ کتنی اذیتوں میں یہ سال گزرا

محسن نقوی
Mohsin Naqwi

1 comment: