Monday 29 December 2014

مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا Mirza Rafi Soda

مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا

پردے کو تعین کے در دل سے اٹها دے
کهلتا ہے ابهی پل میں طلسمات جہاں کا

ٹک دیکھ صنم خانہ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمع حرم رنگ جهمکتا ہے بتاں کا

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کهلے گل کی تو موسم ہوں خزاں کا

دکهلائیے لے جا کے تجهے مصر کے بازار
لیکن نہیں خواہاں کوئی واں جنس گراں کا

سودا جو کبهی گوش سے ہمت کے سنے تو
مضمون یہی ہے جرس دل کی فغاں کا

ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا

مرزا رفیع سودا
Mirza Rafi Soda

2 comments: