Friday 26 December 2014

Jo shajar Sookh Gya Hy Wo Hara Kesy Ho

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
مَیں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو

دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی
نور آنکھوں کا ہے، آنکھوں سے جدا کیسے ہو

جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں، وہ خدا کیسے ہو

عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو

جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدتوں بعد ملے بھی تو گلہ کیسے ہو

دُور سے دیکھ کے مَیں نے اسے پہچان لیا
اس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا، "کیسے ہو؟"

وہ بھی اِک دور تھا جب میں نے تجھے چاہا تھا
دل کا دروازہ ہے۔۔۔ ہر وقت کھلا کیسے ہو

جب کوئی دادِ وفا چاہنے والا نہ رہا
کون انصاف کرے، حشر بپا کیسے ہو

آئینے میں بھی نظر آتی ہے صورت تیری
کوئی مقصودِ نظر تیرے سوا کیسے ہو

کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزادؔ
مجھ کو معلوم نہیں، اس کو پتا کیسے ہو

شہزاد احمد
(کتاب: جلتی بجھتی آنکھیں)

No comments:

Post a Comment