یہ تو اسکا ہی کرشمہ ہے، فسوں ہے، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبهی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے
جیسے کوئی در دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے ، نہ بروں ہے، یوں ہے
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے، یوں ہے
اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے ، یوں ہے
تو نے دیکهی ہی نہیں دشت وفا کی تصویر
نوک ہر خار پے اک قطرہ خوں ہے، یوں ہے
ناصح تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجهاتا ہے، یوں ہے، یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بهی اک سلسلہ کن فیکوں ہے، یوں ہے
احمد فراز
Ahmad Fraz
sdfsf
ReplyDelete