مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعین کے در دل سے اٹها دے
کهلتا ہے ابهی پل میں طلسمات جہاں کا
ٹک دیکھ صنم خانہ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمع حرم رنگ جهمکتا ہے بتاں کا
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کهلے گل کی تو موسم ہوں خزاں کا
دکهلائیے لے جا کے تجهے مصر کے بازار
لیکن نہیں خواہاں کوئی واں جنس گراں کا
سودا جو کبهی گوش سے ہمت کے سنے تو
مضمون یہی ہے جرس دل کی فغاں کا
ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
مرزا رفیع سودا
Mirza Rafi Soda
DFGD
ReplyDeleteRTRT
ReplyDelete