ہر لمحہ پہن کے صدیوں کی شال گزرا
لہو کا موسم بهی آپ اپنی مثال گزرا
حکایت، ضبط، ہجر بنتے کہ اشک چنتے
گزر گیا، جس طرح بهی عہد، وصال گزرا
جو شب بهی آئی حشر کے دن کو ساتھ لائی
وہ دن بهی گزرا وہ وہ شام غم کی مصال گزرا
اجاڑ بستی سے وقت کی سلطنت کا حاکم!
سجا کے ہاتھوں پہ سرخ سورج کا تهال گزرا
میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تها لیکن
تیرے بچهڑنے کا سانحہ بهی کمال گزرا
غم جہاں نے بدل دیا ہے مزاج اپنا
گراں بہت اب کے دل پے تیرا خیال گزرا
ہراس، بارود، موت، شبخوں کا خوف محسن
نہ پوچھ کتنی اذیتوں میں یہ سال گزرا
محسن نقوی
Mohsin Naqwi
MASOOM
ReplyDeletesdsd
ReplyDelete