نئے کپڑے بدل کر جاوں کہاں اور بال بناوں کس کے لیئے
وہ شخض تو شہر ہی چهوڑ گیا میں باہر جاوں کس کے لیئے
جس دهوپ کی دل میں ٹهنڈک تهی وہ دهوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاوں کس کے لیئے
وہ شہر میں تها تو اس کے لیئے اوروں سے بهی ملنا پڑتاتها
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹهاوں کس کے لیئے
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویساجان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاوں کس کے لیئے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گهر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاوں کس کے لیئے
ناصر کاظمی
Nasir Kazmi
SDS
ReplyDeleteDFGDG
ReplyDelete